اس مجموعے کے بیشتر کردار ماضی پرست، ماضی زدہ اور مردم گزیدہ ہیں۔ ان کا اصل مرض ناسٹلجیا ہے۔ جب انسان کو ماضی، حال سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگے اور مستقبل نظر آنا ہی بند ہو جائے تو باور کرنا چاہیے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بڑھاپے کا جوانی لیوا حملہ کسی بھی عمر میں - بالخصوص بھری جوانی میں - ہو سکتا ہے۔۔۔ غور سے دیکھا جائے تو ایشیائی ڈرامے کا اصل ولن ماضی ہے۔۔۔ پاستان طرازی کے پس منظر میں مجروح انا کا طاؤسی رقص دیدنی ہوتا ہے کہ مور فقط اپنا ناچ ہی نہیں، اپنا جنگل بھی خود ہی پیدا کرتا ہے۔ ناچتے ناچتے ایک طلسماتی لمحہ ایسا آتا ہے کہ سارا جنگل ناچنے لگتا ہے اور مور خاموش کھڑا دیکھتا رہ جاتا ہے۔ ناسٹل جیا اسی لمحۂ منمجمد کی داستان ہے۔
نشۂ ماضی میں سرمست ایک مفلوک الحال مگر مغلوب الغضب از کار و از خود رفتہ دکاندار۔ ایک مفلوج اور دل گرفتہ ضعیف آدامی اور اس سے بھی زیادہ گھائل اس کا تنہا ساتھی ۔۔۔ ایک زخمی اور دکھی گوڑا مغل بادشاہوں کے ہم نام ننگ دھڑنگ بچوں کے ساتھ جھگی میں رہنے والا منشی۔ حجت اور محبت کرنے والا دیو ہیکل پٹھان آڑھتی اور ہر فن مست مولا حجام۔ چھوٹے سے کمرے میں پچھتر سال گزار دینے اور کبوتروں اور چڑیوں کو دسراتھ اور بدھ کی مورتیوں میں نروان ڈھوندنے والا سنکی۔ اپنے سنہری دور ماتحتی کی یاد میں گم ایک ضعیف چپراسی۔۔۔ میں نے زندگی کو، اور اپنے آپ کو، ایسے ہی افراد و حوادث کے حوالے سے جانا پہچانا اور چاہا ہے۔ یہ ایسے ہی عام اور درماندہ لوگوں کا تذکرہ ہے جو اپنی ساخت، ترکیب اور دانستہ و آراستہ بے ترتیبی کے اعتبار سے مونتاژ اور پھیلاؤ اور فضا بندی کے لحاظ سے ناول سے زیادہ قریب ہے۔"
No comments:
Post a Comment